#JangColumn: “Yeh QARZ Nahi, MARZ Hai…!” #LoudSpeaker By @AamirLiaquat Husain

#JangColumn: “Yeh QARZ Nahi, MARZ Hai…!” #LoudSpeaker By @AamirLiaquat Husain

یہ قرض نہیں مرض ہے!…لاؤڈ اسپیکر۔۔۔۔۔ڈاکٹرعامرلیاقت حسین headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
154588_s.jpg
’’ قرضِ حَسَنہ ‘‘…کہنے اور لکھنے کو تو ایک دو حرفی لفظ ہے لیکن قابلِ تعظیم ہیں وہ نفوس جوسفید پوشوں کی عزتِ نفس کا بھرم رکھتے ہوئے اُنہیں حلال اور جائز مال میں سے قرضہ فراہم کرتے ہیں اور پھر اُنہی کی گزارشات کا احترام کرتے ہوئے واپسی کے بے جا تقاضے نہیں کرتے بلکہ اُن کی سہولت کو مقدم رکھتے ہوئے اُن کے لیے آسانیاں فراہم کرتے ہیں…مجھے کچھ ایسی ہی توقع اپنے ’’حاکم‘‘ سے بھی تھی،ایک آس تھی کہ اُس نے اپنی پیاری بیٹی کو جو ذمہ داری سونپی ہے وہ ’’حرام‘‘ کی گَرد سے کوسوں دور رہے گی، ایک اُمید تھی کہ حرم شریف میں ستائیسویں شب گزارنے والا وہاں تلاوت کیے جانے والے قرآن کے ہر حکم سے واقف ہوگا اور ایک بھروسہ تھا کہ ’’تیسری بار‘‘تو غلطیاں سُدھاری جاتی ہیں، کی نہیں جاتیں…مگر چھناکے سے سب کچھ ٹوٹ گیا…امدادکی آواز لگا کر قرضِ حَسَنہ کو پہلے سُود کے غلیظ کپڑے پہنائے گئے اور پھر اُسے محروموں کا مداوا بنا کر بے بسوں کے ہجوم میں پھینک دیاگیا… لاچاروں کو تو ’’مدد‘‘ سے غرض تھی،یہ ٹوٹے بکھرے نوجوان تو باعزت روزگار کی تلاش میں روز ہی بے عزت ہوتے تھے، اِن کے لیے جاروب کشی سے تو بہتر تھاکہ قرضہ لے کر قسمت آزماتے سو اِنہوں نے بھی ہاتھ پھیلادیئے…بادشاہ کو مانگنے کی عادت ہو تو رعایا بنا کہے بھکاری بن ہی جاتی ہے… ویسے بھی’’بھِک منگے چارہ گَر‘‘ قوم کو مقروض ہی کرسکتے ہیں اور بلاشبہ یہ’’منتخب کام‘‘ وہ ’’چُنے ہوئے‘‘ انتہائی دل جمعی سے انجام دے رہے ہیں۔
مجھ سے چھلکتی تلخی کی بنیاد قرضوں کے نئے عہد کی تعمیر نہیں بلکہ ہر ایک نوجوان کے خواب کی وہ بھیانک تعبیر ہے جس کے ہر منظر میں سُود کا رنگ بھرا ہے…یہ قرض نہیں مرض ہے جس کے بیمار کا کوئی علاج نہیں، خوشبودار لہجوں ،خوش کُن دعوؤں اور سرسبز وعدوں سے بانجھ اِرادے اولاد نہیں جَنا کرتے!…حَرام اور ناپسندیدہ فعل کو کھیل بنا کر ایمان جیتا نہیں جاسکتااور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ’’جنگ‘‘ کا اعلان کر کے لعن کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا…اور ہماری سرکشی مُلاحظہ فرمائیے کہ ہم نافرمانی پر تُلے ہوئے ہیں، سود کی زلفِ گرہ گیر میں ایسے اُلجھے ہیں کہ اب نکلنے کو جی ہی نہیں چاہتا، دماغ میں گویا اِک ہوا سی بھر گئی ہے جسے ’’رِبا کی چاہت‘‘ کے سوا اور کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا، رَب کی رِضا تو رِبا سے بے زاری تھی پَر بازاری خواہشوں نے ’’سَب راحتوں‘‘ کے حصول کے جنون میں ’’رَب کی چاہتوں‘‘ کو بھلادیا، اُس نے اپنا ہر وعدہ نبھایا، ہر عہد پورا کیا اور اپنی شان کے مطابق عطاکئے جارہا ہے …اور بندے کو دیکھئے کہ یوں پابندی سے عہد توڑتا ہے کہ جیسے یہ وعدہ خلافی (معاذ اللہ) دین کا تقاضا ہو۔
میں مولوی ہوں اور نہ ہی زاہد و عابد، پارسائی کے دعوے جمائے اور نہ ہی تقوے کے باغ لگائے لیکن زہروں کو خمیرے بتا کر بیچنے والوں سے کل بھی لاتعلقی کا اظہار کیا اور آج بھی اُن سے سمٹ کر چلتا ہوں…اب چاہے کوئی مجھے بنیاد پرست کہے یا قنوطی، قدامت پسند گردانے یارقیبِ ارتقا…مگر جس شے کو میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دے دیا میں اُس کے حلالی ہونے کی وکالت نہیں کر سکتا… حیران ہوں کہ اِس قرضہ اسکیم پر ’’علمائے حق‘‘ نے کس فتوے کے دھاگے سے اپنے ہونٹ سی لئے ہیں…ماناکہ ملک میں سودی نظام رائج ہے ،انکار نہیں کہ مجھ سمیت کروڑوں پاکستانی اِس کے ’’غبار‘‘ سے محفوظ نہیں اور اقرار کرتا ہوں کہ اِسے بدلنے کی ہم میں نیت ہے اور نہ ہمت…لیکن جب وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے باقاعدہ ’’سودی قرضوں‘‘ کی فراہمی کے نقارے بجائے جائیں اور اِس کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے قانونِ دیت کی مثالیں دینے والے’’جید علمائے کرام‘‘ کی سماعتیں اُسے سننے سے قاصر ہوں تو مجھ جیسے گناہ گاروں پر کیا بوجھ؟…ذرا ذرا سی بات پر کسی نہ کسی ’’ٹاک شو‘‘ کی کھڑکی میں آکر قرآن و سنت کے ضابطے یاد دلانے والے بعض’’معروف اسکالرز‘‘ اب کس کی خاطر خاموش ہیں؟ قرآن واضح، حدیث روشن،احکام برحق پھر چپ کا دکھ سینے سے کیوں لگائے بیٹھے ہیں؟سُود میں ڈوبے ہوئے ملک کا حاکم اب ایک تیار نسل کوسود میں ڈبو کر قرضے دینے کا خواہشمند ہے اور ہم ہیں کہ بس چُپ…!
ہم تو ویسے ہی عذابوں میں گِھرے ہوئے ہیں، دفترتہ ہوچکا، بے برکتی نے گھر دیکھ لیا،رونقیں منہ موڑ گئیں، خوشیوں نے راہ بدل لی لیکن ہم نے روش نہ بدلی…ایک بار بھی حرام کو ترک نہ کیا،تقریریں بہت کیں،تحریریں مسلسل لکھیں لیکن عمل ندارد!بھول بیٹھے کہ سودی بینکاری کے پُرکشش اشتہاروں کی حرام کاری سے آشیانوں کی آرائش نہیں ہوتی بلکہ یہ تو وہ آلائش ہے جس میں تہ بہ تہ وسوسوں کے کیڑے پَلتے ہیں…اور ہم پھر بھی رغبت سے اِس غلاظت کو کھاتے بھی ہیں اور سجاتے بھی ہیں، پاکستان میں کتنے شہید ہیں اور کتنے ہلاک یہ گنتیاں کرنا تو ہمیں خوب آتا ہے مگر کتنے ’’سودی‘‘ ہیں؟ یہ ہم اِس لئے گننا نہیں چاہتے کیونکہ گنتی کا آغاز ہی ہماری ذات سے ہو گا…اور اب تو ہماری جرأت و ہمت کے کیا کہنے کہ ڈنکے کی چوٹ پر کھوٹ کی فروخت کا خوب اہتمام کیا ہے کہ ’’درباری‘‘ اِس آگ کو بھی ’’راگ‘‘ سے بیچ رہے ہیں۔
گو کہ قرآن پاک کی تجلیاں اور تابانیاں تو سب ہی پر آشکار ہیں مگر یہاں ’’یاددہانی‘‘ کے لئے اپنے سَیَّدی اور مُرشدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورانی لفظوں کی تسبیح کے چند موتی پڑھنے کی سعادت حاصل کروں گا تاکہ یہ ’’سود‘‘ سب پر واضح ہوجائے…ابن ماجہ،بیہقی اور مُستَدرکِ حاکم میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سود کے 73درجے ہیں اور سب سے آسان(کم تر) درجہ اپنی ماں سے نکاح کرنے جیسا ہے…دارِ قطنی، مُسندِ احمد بن حنبلؒ اور مجمع الزوائد میں ’’غسیل الملائکہ‘‘(وہ صحابی جنہیں ملائکہ نے غسل دیا)حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی جانتے ہوئے سود کا ایک درہم کھائے تو وہ اسلام میں 36مرتبہ زنا کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے…صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کھانے والے (لینے والے) پر، سود کھلانے والے (دینے والے) پر،اُس کے لکھنے والوں پر اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور آپ نے فرمایا کہ اِس (گناہ) میں وہ سب برابر ہیں…
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہم سے یوں مخاطب ہے کہ حضرت سمرہ بن جُندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آج رات دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سرزمین کی جانب لے گئے، ہم چلتے رہے یہاں تک کہ خون کی ایک نہر کے کنارے پہنچ گئے، ایک شخص اُس نہر کے اندر اور دوسرا کَنارے پر ہے جس کے آگے پتھر پڑے تھے،اندر والا شخص باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور باہر والا ایک پتھر اُس کے منہ پر دے مارتا ہے جس سے وہ واپس نہر میں پلٹ جاتا ہے میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ اندر کون شخص ہے تو مجھے بتایاگیا کہ یہ سود خور ہے…صحیح الترغیب،مُسندِ ابویعلیٰ اور مُستدرکِ حاکم میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت موجود ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس قوم میں زنا اور سود پھیل جاتا ہے وہ اپنے نفسوں پر اللہ کا عذاب حلال قرار دے لیتے ہیں۔
نصائح مصطفیٰ لازوال ہیں،احادیث بے شمار ہیں ، روشنی ہر قدم پر ہے لیکن چلنے والے تھوڑے اور عمل والے بہت قلیل!سود تو اُن سات کبیرہ گناہوں میں بھی شامل ہے جو بدقسمتی سے قوم کی رگ و پے میں سرایت کرتے جارہے ہیں…سود تو وہ دشوار اور پیچیدہ راستہ ہے جس کا مسافر اپنی منزل پر پہنچ کر’’نیا معبود‘‘ تراشتا ہے …پتہ نہیں کہ اِس غنودگی کے عالَم میں ہم کہاں تک جائیں گے؟صغیرہ کانٹے ہیں اور کبیرہ پتھر! کبھی چھلنی ہوتے ہیں اور کبھی ٹھوکر کھا کر گِر جاتے ہیں لیکن اِن حادثوں سے جاگتے نہیں… بدی کی زینت کے سامنے جب اچھائی پھیکی پڑ جائے تو حیا پانی میں ڈھلنے کے بعد بخارات کی شکل میں عرش کو واپس لوٹ جاتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا ہے کہ ’’جس میں حیانہیں وہ پھر جو چاہے،کرے‘‘…!!!
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=154588
ہر دلعزیز میزبان اور مذہبی ریسرچ اسکالر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے اچھے اچھے پیغامات مفت میں اپنے موبائل پر حاصل کرنے کے لیے ابھی ایس ایم ایس کیجئے

F @AamirLiaquat and SEND to 40404
Official website of Dr Aamir Liaquat Husain: www.aamirliaquat.com

06_07.gif

Leave a comment